امروز چهارشنبه ۰۵ ارديبهشت ۱۴۰۳ - ۱۷:۵۲
کد خبر: ۴۶۷۰
تاریخ انتشار: ۱۰ خرداد ۱۳۹۹ - ۱۲:۰۰
مسئلہ فلسطین: زبانی سے عملی حمایت کی مختصر تاریخ
مسئلہ فلسطین: زبانی سے عملی حمایت کی مختصر تاریخ

فلسطین عثمانی سلطنت کا حصہ تها جو 1922 میں لیگ آف نیشنز کی طرف سے انگلستان کی سرپرستی میں دیا گیا. اس علاقه کے کنٹرول کیلئے انگلستان کے مینڈیٹ پر مبنی طریق کار کے تحت 1917 میں "بالفورڈ ڈیکلریشن" جاری کیا گیا جسکے ذریعہ فلسطینی سرزمین کو تبدیل کرکے اسے یہودیوں کی اصلی اور قومی سرزمین قرار دے دیا گیا. مذکوره مینڈیٹ کے طریق کار سے 1922 سے 1947 کے دوران یہاں پوری دنیا اور خصوصا مشرقی یورپ سے بڑے پیمانہ پر یہودیوں کی ہجرت عمل میں آئی. جبکه تیس کی دھائی میں نازیوں کے مظالم نے اس ہجرت میں نمایاں اضافه کیا. وسیع پیمانے پر ہجرت، فلسطینیوں کی املاک اور اموال کی لوٹ مار، ان کے انفرادی حقوق کی پامالی، "قوم کے بغیر زمین اور زمین کے بغیر قوم کیلۓ" جیسے غلط اور غیر منطقی نعروں اور امریکا کی طرف سے غاصبوں کی ٹھوس حمایت سے آخر کار صیہونی ریاست کا قیام عمل میں آیا.

انگلستان کی زیر سرپرستی مدت کے دوران برطانیه کے غیر قانونی اقدامات کے بعد 1948 میں امریکه کی طرف سے اور پهر سویت یونین کی طرف صیہونی ریاست کو تسلیم کر لیا گیا. یه اقدام اس طرح عمل میں لایا گیا که فلسطین اور اس خطه کے اصلی باشندوں‌ سے ان کے حق خود ارادیت اور ان کے مستقبل کے بارے میں کسی قسم کی مشاورت کی زحمت گوارا نہیں کی گئی. درحقیقت صیہونی حکومت کا قیام اس حال میں عمل میں آیا که فلسطین کےاصلی باشندوں کو اپنے مستقبل کے تعیین کا حق نہیں دیا گیا. وه تمام اقدامات جن کا نتیجہ صیہونی حکومت کی شکل میں ظاہر ہوا، زمانه کے رائج تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تهے. لیگ آف نیشنز کے منشور کے آرٹیکل 22 کے تحت انگلستان کو فلسطین پر کسی قسم کی حاکمیت کے حقوق و اختیار حاصل نہیں تھے اور اسے چاہیے تھا که ایک ایسے ریفرنڈم کے ذریعه اس سرزمین کے تمام باشندوں کو ان کے حق خود ارادیت کے اظهار کا موقع فراہم کرتا. جبکه نه صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکه زیاده سے زیاده دباؤ کے نظریه کے تحت مخالفین کی سرکوبی، فلسطینی دانشوروں کی ان کے گھروں سے جبری بیدخلی، فلسطین کی سرزمین کو اصلی باشندوں سے خالی کرانا اور اس جیسے دوسرے پر تشدد اقدامات بهی عمل میں لائے گئے. 

ہجرت کو روکنے سے متعلق اسلامی ممالک کی درخواست پر بڑی طاقتوں کی بے پروائی، دیگر اقدامات پر سستی اور اس کے نتیجه میں بے تحاشا مسلسل ہجرت اور عین اسی دوران فلسطینی عوام کے خلاف  تشدد کا نتیجه دشمنی اور نفرت کی صورت میں اس سارے خطه میں ظاہر ہوا. اس غیر متناسب جهگڑے کے دوران غاصب افواج کو اسلحه کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور بڑے ذخائر سے نوازا گیا لیکن فلسطین کے ستم رسیدہ عوام کے ہاتهوں میں صرف وه چهوٹے پتهر تهے جنہیں وه احتجاج کے طور پر پهینک رہے تهے. اس کے ساتھ  ساتھ فلسطینی عوام روز بروز اپنی زمینوں سے بیدخلی اور اپنی شناخت کو ختم ہوتا دیکھ رہے تهے جبکه صیہونی روز بروز طاقتور بهی ہو رہے تهے اور زیاده سے زیاده زمینیں بهی ہتهیا رہے تهے۔

جامع حل کا فقدان

اس وقت سے آج تک غاصبوں کے بدترین جرائم کو بے نقاب کرنے کیلئے اقوام متحده کو مختلف تجاویز دی جاتی رہیں اور مختلف عالمی اور علاقائی فورم پر صیہونی ریاست کے ظالمانہ ہتهکنڈوں کی زبانی اور لفظی مذمت کیلۓ  کئی ایک قرار دادیں بهی پاس کی گئیں لیکن ان میں سے کوئی بهی فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں کامیابی نه ہو سکی. 

اسلامی تعاون تنظیم جو که 1969 میں بیت المقدس پر مجرمانه حمله کے بعد 25 ستمبر 1969 کو فلسطینیوں کی حمایت کے نظریہ کے تحت وجود میں آئی، ابتک فلسطینیوں کی آزادی اور خودمختاری کے مقصد کو حاصل نہیں کر سکی اور فلسطینی دهائیوں سے صیہونی ریاست کی قید میں ہیں، اس ناکامی کی بڑی وجه ان کے ارکان کے درمیان اختلافات اور دخل انداز عناصر کا تخریبی کردار ہے. فلسطین کے استحکام اور اس کے قیام کیلۓ پیش کی گئی تجاویز اور پاس کی گئی قراردادوں کی ناکامی نے صیہونی حکومت کا راسته ہموار کیا ہے تا که پہلے مرحلے میں قبضه کو مضبوط کرکے پهر غزه کا کنارہ اور مغربی پٹی کو اپنے  مقبوضه علاقه کےساتھ ضم کر سکے. اس تمام عمل کا نتیجه فلسطینیوں کے بےگهر اور دوسرےممالک میں مہاجر هونے کی صورت میں ظاهر ہوا. فلسطینی عوام کے ٹھوس مطالبات خود ارادیت ، قومی خودمختاری، حق اقتدار اور اپنی سرزمین پر واپسی کے حقوق حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی ناکامی نے انہیں  پہلے انتفاضه اول اور اب انتفاضه دوم جیسی تحریکوں کی راه دکهائی.

فلسطینی سرزمین پر محاذ آرائی کے آغاز سے اب تک اسلامی ممالک کی طرف سے مذکوره  تنظیموں  کو فلسطینی عوام کے مکمل حقوق بحال کرنے پر مجبور کرنے کیلیۓ  کوششیں عمل میں لائی گئی ہیں لیکن امریکه کی طرف سے تخریبی کردار اور اقوام متحده کی فیصله سازی می دخل اندازی کی بدولت، فلسطینی عوام کے حقوق پر انتہائی کم  توجه دی جا پائی ہے حتی که یه کم ترین توجه اور کم سےکم حقوق جو که مذکوره بین الاقوامی  تنظیموں کی طرف سے مشاہدہ کئے گئے ، جن میں انسانی حقوق کمیشن، انسانی حقوق کونسل، سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی وغیره، نفاذ کے مراحل میں موجود رکاوٹوں کی وجه سے بهی اپنے مطلوبه نتائج حاصل نه کر سکی ہیں۔

ان واقعات سے یه واضح ہوتا ہے که صیہونی لالچی حکومت اور اس کے حامی اقوام متحده کے فیصلوں اور حکمت عملیوں کے تحت کم سے کم سہولت بهی فلسطینیوں کو دینے پر آماده نہیں ہے . تاریخ بخوبی گواه ہے که فلسطین میں صیہونی حکومت کے وحشیانه غیر انسانی اقدامات کی مذمت کرنے پر امریکه نے انسانی حقوق کمیشن کو کس طرح بند گلی میں لا کهڑا کیا ہے. فلسطینیوں کی امداد پر اقوام متحده کی بے بسی کے ساتھ ساتھ، مغربی ممالک کی صیہونی حکومت کے بڑھتے ہوۓ مظالم سے چشم پوشی سے غاصب حکومت پہلے سے کہیں بڑھ کر فلسطین کے معصوم عوام کےحقوق پامال کرنے میں جت گئی. اس مجرم حکومت نے امریکه کی پشت پناہی سے اپنی بدمعاشی اور بین الاقوامی سطح پر معروف اقدار کی پامالی کا عمل بڑھا دیا هے.

عرب ممالک کی طرف سے اس نئے ایجنڈےکے سامنے غیر فعال رد عمل سے فلسطینیوں کیلۓ پہلے سے کہیں زیاده مشکل حالات پیدا ہوۓ، جس کا مقصد مسئله فلسطین کو ہمیشه ہمیشه کیلۓ دفن کرنا ہے. اس نۓ ایجنڈے میں سے ایک ڈونالڈ ٹرمپ کی ڈیل آف دا سینچری والی تجویز ہے جو که شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے. کیونکه اس میں فلسطینیوں کیلۓ کسی استحکام اور ریلیف کی کوئی جهلک موجود نہیں ہے. بلکه صیہونی حکومت کو دوسری سرزمینوں کو اپنے ساتھ ضم کرنے کےدعووں کی بھی حوصله افزائی کرتی ہے. اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا که مذکوره ڈیل والی تجویز کو دوسری سرزمینوں کو ہڑپ کرنے کا لباده اوڑھنا کہیں یا اس صدی کا سب سے بڑا تهپڑ! اہم بات یه ہے که اس تجویز سے موجوده بحران اور جنگی حالات پر کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی. 

مسئله فلسطین کے متعلق ایرانی ردعمل پر ایک نظر:

اسلامی جمہوریه ایران کے بانی اور رہبر امام خمینی (رہ) نے سات اگست 1979 کو ماه رمضان کے آخری جمعه کو یوم قدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تا که پوری دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو کر صیہونی حکومت کی مذمت اور مظلوم فلسطینی عوام کیساتھ اظهار یکجہتی کریں. امام خمینی (ره) نے اسکے ساتھ ہی فلسطین کی آزادی کو هر مسلمان کا مذہبی فریضه قرار دیا ہے.

اس اجتماعی اور علامتی اقدام کے علاوه ایران نے غارت گری اور سرکوبی کیخلاف فلسطین کی تحریک مزاحمت کی حمایت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے نہیں دیا. ایران کی طرف سے سب سے اہم حمایت، روحانی اور مجازی حمایت ہے جس کے تحت مختلف مسائل اور موضوعات کا وسیع احاطه کیا گیا، جس کے تحت فلسطینیوں  کی آواز پوری دنیا تک پہنچانے، کئی طرفه فورموں اور فلسطینیوں کے اپنا حق لینے کے جذبے کی تقویت قابل ذکر ہیں. اس حمایت کے نتیجه میں فلسطینی عوام اپنے ان حقوق کے تحفظ کیلۓ جو که اقوام متحده کے منشور کے آرٹیکل 51 میں بهی درج ہوۓ ہیں، یک سو ہو کر جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں. 

مسئله فلسطین کے حل کیلئے اس سے پہلے پیش کی گئی تجاویز کے کارآمد نه ہونے اور امتیازی ہونے کے پیش نظر، اسلامی جمہوریه ایران نے اقوام متحده کو "فلسطینی قومی ریفرنڈم" کےعنوان سے ایک جامع تجویز پیش کی ہے جس میں واضح طور پر فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے حصول کا نقشہ مہیا کیا گیا ہے. یه حکمت عملی مکمل طور پر اقوام متحده کے منشور اور دوسرے بین الاقوامی قوانین، جیسا که انسانی حقوق اور دوستانه انسانی حقوق کے مطابق ہے. کہ وه تمام فلسطینی جس میں مسلمان، یہودی اورعیسائی شامل ہیں جو رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر بالفور ڈیکلئریشن سے پہلے اس سرزمین پر آباد تهے، وه اس قومی ریفرنڈم کو منعقد کریں گے اور اس کے نتائج کی بنیاد پر سیاسی نظام تشکیل پاۓ گا جو که تارکین وطن کے بارے میں فیصله کریگا. اس تجویز کے نفاذ کیلۓ ضروری ہے که وه فلسطینی عوام جو  اس سرزمین کے اصلی باشندے اور اصلی مالک ہیں اور ہجرت اور پناه کے طور پر دوسرے ممالک اور علاقوں میں ره رہے ہیں، وه تمام افراد اپنے آبائی علاقوں میں واپس لاۓ جائیں. جبکه اس بات کا تقاضا خود فلسطینی عوام نے بهی کیا ہے اور اقوام متحده کی قراردادوں میں بهی اس کی طرف اشاره کیا گیا ہے.
جیسا که پہلے بهی اشاره کیا که ایران نے فلسطینیوں کی حمایت کیلئے کسی بهی کوشش اور موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اس راستے پر بہت سے اخراجات اور قربانیاں پیش کر چکا ہے. گذشته دہائیوں میں ایران نے فلسطینی کاز کی حمایت کی وجه سے بہت زیاده دباؤ کا سامنا کیا ہے. امریکه کی طرف سے یکطرفه پابندیاں ، امریکه کی طرف سے ایران کو بدنام کرنے اور مسلح افواج کو دہشتگرد ظاہر کرنے کا غیر قانونی اقدام، جیسا که "قدس فورس"، اعلی ایرانی فوجی حکام کو نشانه بنانا، قدس کے شہید سردار قاسم سلیمانی، جس شخص نے بین الاقوامی قوانین کے فریم ورک کے اندر، خطه کے مظلوم عوام کی حمایت کی اور دہشتگردی، استحصال اور قبضه کیخلاف ڈٹ کر اپنا کردار ادا کیا. ان دشواریوں اور قربانیوں کے باوجود ایران کی بیدار قوم، پوری دنیا کے باضمیر لوگوں کیساتھ ملکر فلسطینی کاز کے تحفظ کیلئے ثابت قدم ہے. جو که خودمختاری، آزادی اور عوام کا اقتدار ہے. 

حاصل گفتگو:

یه بات گہرے دکھ کا باعث ہے که سات دہائیوں کے بعد بهی مسئله فلسطین حل نہیں ہوا اور عالمی معاشره بهی اس منفرد اور پیچیده بحران کے سامنے بے بسی محسوس کر رہا ہے.

اقوام متحده کے اقدامات کے غیر موثر اور غیر اھم ثابت ہونے کے پیش نظر،  امت مسلمہ فلسطینیوں کی مدد اور ان کے حقوق کی بحالی کیلئے اپنے دینی فرائض کے مطابق یکجہتی کے ساتھ متحد ہو جاۓ اور اس صیہونی دھوکہ باز اور غاصب  حکومت کیخلاف ایک ٹهوس موقف اختیار کرے جس کے پاس قتل عام، تباہی، اسلامی مقدسات کی توہین وغیرہ کے سوا ہمارے خطه کیلۓ اور کچھ نہیں ہے.

فلسطین اور قدس شریف کی حمایت کیلۓ دنیا بهر کےمسلمان آج بهی گذشته سالوں کی طرح، امام خمینی (ره) کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت میں رمضان المبارک کے آخری جمعه کو یوم قدس کے طور پر منائیں گے.


سید محمد علی حسینی
پاکستان میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر

ارسال نظر
نام:
ایمیل:
* نظر:
آخرین اخبار
نیازمندیها
مطبوعات و خبرگزاریها